کتاب حدیث
صحیح بخاری
کتاب
روزے کا بیان
باب
عورت کا اپنے شوہر سے اس کے اعتکاف کی حالت میں ملاقات کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر
1907
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ صَفِيَّةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ ح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ وَعِنْدَهُ أَزْوَاجُهُ فَرُحْنَ فَقَالَ لِصَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ لَا تَعْجَلِي حَتَّی أَنْصَرِفَ مَعَکِ وَکَانَ بَيْتُهَا فِي دَارِ أُسَامَةَ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهَا فَلَقِيَهُ رَجُلَانِ مِنْ الْأَنْصَارِ فَنَظَرَا إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ أَجَازَا وَقَالَ لَهُمَا النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعَالَيَا إِنَّهَا صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ قَالَا سُبْحَانَ اللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنْ الْإِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ وَإِنِّي خَشِيتُ أَنْ يُلْقِيَ فِي أَنْفُسِکُمَا شَيْئًا
سعید بن عفیر، لیث، عبدالرحمن بن خالد، ابن شہاب، علی بن حسین، حضرت صفیہ رضی ﷲ عنہا زوجہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں انہوں نے علی بن حسین سے بیان کیا کہ، ح، عبدﷲ بن محمد، ہشام معمر زہری، علی بن حسین سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم مسجد میں تھے اور آپ کے پاس آپ کی بیویاں تھیں وہ روانہ ہونے لگیں تو آپ نے صفا بنت حیی سے فرمایا جلدی نہ کرو، یہاں تک کہ میں بھی تیرے ساتھ چلوں اور ان کی کوٹھری اسامہ بن زید کے گھر میں تھی، نبی صلی ﷲ علیہ وسلم ان کے ساتھ چلے- تو آپ سے دو انصاری ملے ان دونوں نے نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کو دیکھا پھر آگے بڑھے- اور نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے ان دونوں کو پکارا کہ تم دونوں آؤ یہ صفیہ بنت حیی ہیں ان دونوں نے عرض کیاسبحان ﷲ یا رسول ﷲ (آپ کی طرف سے کوئی بد گمانی ہو سکتی ہے) آپ نے فرمایا شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح دوڑتا ہے اور مجھے خوف ہے کہ کہیں تمہارے دلوں میں کوئی بد گمانی نہ پیدا کر دے۔
contributed by MUHAMMAD TAHIR RASHID.
No comments:
Post a Comment