کتاب حدیث
صحیح بخاری
کتاب
نماز کا بیان
باب
وہ مسجدیں جو مدینہ کے راستوں پر ہیں اور وہ مقامات جن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی
حدیث نمبر
466
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ عُقْبَةَ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يَنْزِلُ بِذِي الْحُلَيْفَةِ حِينَ يَعْتَمِرُ وَفِي حَجَّتِهِ حِينَ حَجَّ تَحْتَ سَمُرَةٍ فِي مَوْضِعِ الْمَسْجِدِ الَّذِي بِذِي الْحُلَيْفَةِ وَکَانَ إِذَا رَجَعَ مِنْ غَزْوٍ کَانَ فِي تِلْکَ الطَّرِيقِ أَوْ حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ هَبَطَ مِنْ بَطْنِ وَادٍ فَإِذَا ظَهَرَ مِنْ بَطْنِ وَادٍ أَنَاخَ بِالْبَطْحَائِ الَّتِي عَلَی شَفِيرِ الْوَادِي الشَّرْقِيَّةِ فَعَرَّسَ ثَمَّ حَتَّی يُصْبِحَ لَيْسَ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الَّذِي بِحِجَارَةٍ وَلَا عَلَی الْأَکَمَةِ الَّتِي عَلَيْهَا الْمَسْجِدُ کَانَ ثَمَّ خَلِيجٌ يُصَلِّي عَبْدُ اللَّهِ عِنْدَهُ فِي بَطْنِهِ کُثُبٌ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَمَّ يُصَلِّي فَدَحَا السَّيْلُ فِيهِ بِالْبَطْحَائِ حَتَّی دَفَنَ ذَلِکَ الْمَکَانَ الَّذِي کَانَ عَبْدُ اللَّهِ يُصَلِّي فِيهِ وَأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّی حَيْثُ الْمَسْجِدُ الصَّغِيرُ الَّذِي دُونَ الْمَسْجِدِ الَّذِي بِشَرَفِ الرَّوْحَائِ وَقَدْ کَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَعْلَمُ الْمَکَانَ الَّذِي کَانَ صَلَّی فِيهِ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ ثَمَّ عَنْ يَمِينِکَ حِينَ تَقُومُ فِي الْمَسْجِدِ تُصَلِّي وَذَلِکَ الْمَسْجِدُ عَلَی حَافَةِ الطَّرِيقِ الْيُمْنَی وَأَنْتَ ذَاهِبٌ إِلَی مَکَّةَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْمَسْجِدِ الْأَکْبَرِ رَمْيَةٌ بِحَجَرٍ أَوْ نَحْوُ ذَلِکَ وَأَنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ يُصَلِّي إِلَی الْعِرْقِ الَّذِي عِنْدَ مُنْصَرَفِ الرَّوْحَائِ وَذَلِکَ الْعِرْقُ انْتِهَائُ طَرَفِهِ عَلَی حَافَةِ الطَّرِيقِ دُونَ الْمَسْجِدِ الَّذِي بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْمُنْصَرَفِ وَأَنْتَ ذَاهِبٌ إِلَی مَکَّةَ وَقَدْ ابْتُنِيَ ثَمَّ مَسْجِدٌ فَلَمْ يَکُنْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يُصَلِّي فِي ذَلِکَ الْمَسْجِدِ کَانَ يَتْرُکُهُ عَنْ يَسَارِهِ وَوَرَائَهُ وَيُصَلِّي أَمَامَهُ إِلَی الْعِرْقِ نَفْسِهِ وَکَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَرُوحُ مِنْ الرَّوْحَائِ فَلَا يُصَلِّي الظُّهْرَ حَتَّی يَأْتِيَ ذَلِکَ الْمَکَانَ فَيُصَلِّي فِيهِ الظُّهْرَ وَإِذَا أَقْبَلَ مِنْ مَکَّةَ فَإِنْ مَرَّ بِهِ قَبْلَ الصُّبْحِ بِسَاعَةٍ أَوْ مِنْ آخِرِ السَّحَرِ عَرَّسَ حَتَّی يُصَلِّيَ بِهَا الصُّبْحَ وَأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يَنْزِلُ تَحْتَ سَرْحَةٍ ضَخْمَةٍ دُونَ الرُّوَيْثَةِ عَنْ يَمِينِ الطَّرِيقِ وَوِجَاهَ الطَّرِيقِ فِي مَکَانٍ بَطْحٍ سَهْلٍ حَتَّی يُفْضِيَ مِنْ أَکَمَةٍ دُوَيْنَ بَرِيدِ الرُّوَيْثَةِ بِمِيلَيْنِ وَقَدْ انْکَسَرَ أَعْلَاهَا فَانْثَنَی فِي جَوْفِهَا وَهِيَ قَائِمَةٌ عَلَی سَاقٍ وَفِي سَاقِهَا کُثُبٌ کَثِيرَةٌ وَأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّی فِي طَرَفِ تَلْعَةٍ مِنْ وَرَائِ الْعَرْجِ وَأَنْتَ ذَاهِبٌ إِلَی هَضْبَةٍ عِنْدَ ذَلِکَ الْمَسْجِدِ قَبْرَانِ أَوْ ثَلَاثَةٌ عَلَی الْقُبُورِ رَضَمٌ مِنْ حِجَارَةٍ عَنْ يَمِينِ الطَّرِيقِ عِنْدَ سَلَمَاتِ الطَّرِيقِ بَيْنَ أُولَئِکَ السَّلَمَاتِ کَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَرُوحُ مِنْ الْعَرْجِ بَعْدَ أَنْ تَمِيلَ الشَّمْسُ بِالْهَاجِرَةِ فَيُصَلِّي الظُّهْرَ فِي ذَلِکَ الْمَسْجِدِ وَأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَ عِنْدَ سَرَحَاتٍ عَنْ يَسَارِ الطَّرِيقِ فِي مَسِيلٍ دُونَ هَرْشَی ذَلِکَ الْمَسِيلُ لَاصِقٌ بِکُرَاعِ هَرْشَی بَيْنَهُ وَبَيْنَ الطَّرِيقِ قَرِيبٌ مِنْ غَلْوَةٍ وَکَانَ عَبْدُ اللَّهِ يُصَلِّي إِلَی سَرْحَةٍ هِيَ أَقْرَبُ السَّرَحَاتِ إِلَی الطَّرِيقِ وَهِيَ أَطْوَلُهُنَّ وَأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يَنْزِلُ فِي الْمَسِيلِ الَّذِي فِي أَدْنَی مَرِّ الظَّهْرَانِ قِبَلَ الْمَدِينَةِ حِينَ يَهْبِطُ مِنْ الصَّفْرَاوَاتِ يَنْزِلُ فِي بَطْنِ ذَلِکَ الْمَسِيلِ عَنْ يَسَارِ الطَّرِيقِ وَأَنْتَ ذَاهِبٌ إِلَی مَکَّةَ لَيْسَ بَيْنَ مَنْزِلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ الطَّرِيقِ إِلَّا رَمْيَةٌ بِحَجَرٍ وَأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يَنْزِلُ بِذِي طُوًی وَيَبِيتُ حَتَّی يُصْبِحَ يُصَلِّي الصُّبْحَ حِينَ يَقْدَمُ مَکَّةَ وَمُصَلَّی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِکَ عَلَی أَکَمَةٍ غَلِيظَةٍ لَيْسَ فِي الْمَسْجِدِ الَّذِي بُنِيَ ثَمَّ وَلَکِنْ أَسْفَلَ مِنْ ذَلِکَ عَلَی أَکَمَةٍ غَلِيظَةٍ وَأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَقْبَلَ فُرْضَتَيْ الْجَبَلِ الَّذِي بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجَبَلِ الطَّوِيلِ نَحْوَ الْکَعْبَةِ فَجَعَلَ الْمَسْجِدَ الَّذِي بُنِيَ ثَمَّ يَسَارَ الْمَسْجِدِ بِطَرَفِ الْأَکَمَةِ وَمُصَلَّی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْفَلَ مِنْهُ عَلَی الْأَکَمَةِ السَّوْدَائِ تَدَعُ مِنْ الْأَکَمَةِ عَشَرَةَ أَذْرُعٍ أَوْ نَحْوَهَا ثُمَّ تُصَلِّي مُسْتَقْبِلَ الْفُرْضَتَيْنِ مِنْ الْجَبَلِ الَّذِي بَيْنَکَ وَبَيْنَ الْکَعْبَةِ
ابراہیم بن منذر حزامی، انس بن عیاض، موسی بن عقبہ، نافع، عبدﷲ بن عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم جب عمرہ فرماتے یاحج کرتے تو (مقام) ذوالحلیفہ میں بھی اترتے تھے اور جب غزوہ سے لوٹے اور اس راہ میں (سے) ہو کر آتے، یا حج یا عمرہ میں ہوتے، تو وادی کے اندر اتر جاتے، پھرجب وادی کے گہراو سے اوپر اتر جاتے تو اونٹ کو اس بطحاء میں بٹھا دیتے تھے، جو وادی کے کنارے پر بجانب مشرق ہے، اور آخرشب میں صبح تک وہیں آرام فرماتے، یہ مقام جہاں آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم استراحت فرماتے، اس مسجد کے پاس نہیں ہے، جو پتھروں پر ہے، اور نہ اس ٹیلے پر ہے، جس کے اوپر مسجد (بنی) ہے، بلکہ اس جگہ ایک چشمہ تھا کہ عبدﷲ اس کے پاس نماز پڑھا کرتے تھے، اور اس کے اندر کچھ تودے (ریت کے) تھے، رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم وہیں نماز پڑھتے تھے، پھر اس میں بطحاء سے سیل بہہ کر آیا، یہاں تک کہ وہ مقام جہاں عبدﷲ نماز پڑھتے تھے، پر ہو گیا، اور عبدﷲ بن عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے نافع سے بیان کیا کہ نبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس مقام پر (بھی) نماز پڑھی ہے، جہاں چھوٹی مسجد ہے، جو اس مسجد کے قریب ہے، جو روحاء کی بلندی پر ہے، اور عبدﷲ اس مقام کو جانتے تھے، جہاں نبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے نماز پڑھی تھی، وہ کہا کرتے تھے، کہ وہاں تمہارے داہنی طرف ہے، جب تم مسجد میں نماز پڑھنے کھڑے ہو اور یہ مسجد راسے کے داہنے کنارے پر ہے، جب کہ تم مکہ کی طرف جا رہے ہو، اس کے اور پڑی مسجد کے درمیان ایک پتھر کا نشان ہے یا اس کے قریب، اور ابن عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ اس پہاڑی کے پاس (بھی) نماز پڑھا کرتے تھے، جوروحاء کے خاتمہ کے پاس ہے، اور اس پہاڑی کا کنارہ مسجد کے قریب کی جانب میں ہے، وہ مسجد جواس پہاڑی اور واپسی روحاء کے درمیان ہے اور اس جگہ ایک دوسری مسجد بنادی گئی ہے، مگرعبدﷲ بن عمر اس مسجد میں نماز نہ پڑھتے تھے، بلکہ اس کو اپنے بائیں جانب چھوڑ دیتے تھے، اور اس کے آگے (بڑھ کر) خاص پہاڑی کے پاس نماز پڑھا کرتے تھے اور عبدﷲ ، روحاء سے صبح کے وقت چلتے تھے، پھر ظہر کی نماز پڑھتے تھے، یہاں تک کہ اس مقام میں پہنچ جاتے، پس وہیں ظہر کی نماز پڑھتے اور جب مکہ سے آتے تو اگرصبح سے کچھ پہلے یا آخر شب میں اس مقام پر پہنچتے، تو صبح تک وہیں ٹھھر کر صبح کی نماز وہیں پڑھتے، اور عبدﷲ نے نافع سے یہ (بھی) بیان کیا کہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم (مقام) رویثہ کے قریب راستہ کے داہنی جانب اور راستہ کے سامنے کسی گھنے درخت کے نیچے، کسی وسیع اور نرم مقام میں اترتے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم اس ٹیلہ سے جو برید رویثہ سے قریب دو میل کے ہے، باہر آتے اور اس درخت کے اوپر کا حصہ ٹوٹ گیا ہے، وہ اپنے جوف میں دھر گیا ہے، اور (صرف) پیٹری کے بل کھڑا ہے اور اس کی پیٹری میں (ریت کے) بہت ٹیلے ہیں، اور عبدﷲ بن عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے نافع سے بھی بیان کیا کہ نبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس ٹیلے پر (بھی) نماز پڑھی ہے جو (مقام) عرج کے پیچھے ہے، جب کہ تم (قریہ) ہضبہ کی طرف جا رہے ہو، اس مسجد کے پاس دو یا تین قبریں ہیں، قبروں پر پتھر (رکھے) ہیں (وہاں آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے راستہ کی داہنی جانب راستہ کے پتھروں کے پاس (نماز پڑھی ہے) ، انہی پتھروں کے درمیان عبدﷲ آتے تھے، اس کے بعد دوپہر کو آفتاب ڈھل جاتا تھا، پھر وہ ظہر اسی مسجد میں پڑھتے تھے، اور عبدﷲ بن عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے نافع سے یہ بھی بیان کیا کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم اس میل میں جوہر شاہ (پہاڑ) کے قریب ہے، راستہ کے داہنی جانب درختوں کے پاس اترے، سیل ہرشا (پہاڑ) کے کنارے سے ملی ہوئی ہے، اور اس کے راستہ کے درمیان میں قریب ایک تیر کے نشان کا فاصلہ ہے اور عبدﷲ اس درخت کے پاس نماز پڑھتے تھے، جو سب درختوں سے زیادہ راستہ کے قریب تھا اور ان سب سے زیادہ لمبا تھا، عبدﷲ بن عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے نافع سے یہ (بھی) بیان کیا کہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم اس سیل میں (بھی) اترے تھے، جو (مقام) مرالظہران کے اخیر میں مدینہ کی طرف ہے، جب کوئی شخص صفراوات (کے پہاڑوں) سے اترے، آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم اس سیل کے گہراو میں راستہ کی بائیں جانب جب کہ تو مکہ کو جا رہا ہو، نزول فرماتے تھے، رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے اترنے کہ جگہ اور راستہ کے درمیان میں صرف ایک پتھر کا نشان ہے اور عبدﷲ بن عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے نافع سے یہ بھی بیان کیا کہ نبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم (مقام) ذی طول میں اترتے تھے اور رات کو رہتے تھے، جب صبح ہوتی اور صبح کی نماز پڑھتے (یہ اس وقت) جب کہ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم مکہ تشریف لاتے اور رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے نماز پڑھنے کی یہ جگہ ایک سخت ٹیلہ پر ہے، اس مسجد میں، جو وہاں بنائی گئی ہے، بلکہ اس سے نیچے اس سخت ٹیلہ پر، اور عبدﷲ بن عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے نافع سے (بھی) بیان کیا کہ نبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم اس پہاڑ کی گھاٹی کے سامنے آئے وہ گھاٹی کہ جواس پر اور بڑے پہاڑ کے درمیان میں کعبہ کی طرف ہے، پھرآپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس مسجد کو، جو وہاں بنائی گئی ہے، بائیں جانب چھوڑ دیا، جو ٹیلہ کی طرف ہے، اور نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کی جگہ اس سے نیچے سیاہ ٹیلہ کے اوپر ہے، ٹیلے سے دس گز یا اس کے قریب چھوڑدو، پھر پہاڑ کی اس گھاٹی کی طرف جوتمہارے اور کعبہ کے درمیان میں ہے، منہ کر کے نماز پڑھو-
No comments:
Post a Comment