Sunday, December 5, 2010

Sahi Bukhari, Jild 1, Hadith no:1111


کتاب حدیث
صحیح بخاری
کتاب
نماز قصر کا بیان
باب
نفل نمازیں جماعت سے پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر
1111
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ الْأَنْصَارِيُّ أَنَّهُ عَقَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَقَلَ مَجَّةً مَجَّهَا فِي وَجْهِهِ مِنْ بِئْرٍ کَانَتْ فِي دَارِهِمْ فَزَعَمَ مَحْمُودٌ أَنَّهُ سَمِعَ عِتْبَانَ بْنَ مَالِکٍ الْأَنْصارِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَکَانَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ کُنْتُ أُصَلِّي لِقَوْمِي بِبَنِي سَالِمٍ وَکَانَ يَحُولُ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ وَادٍ إِذَا جَائَتْ الْأَمْطَارُ فَيَشُقُّ عَلَيَّ اجْتِيَازُهُ قِبَلَ مَسْجِدِهِمْ فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ لَهُ إِنِّي أَنْکَرْتُ بَصَرِي وَإِنَّ الْوَادِيَ الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَ قَوْمِي يَسِيلُ إِذَا جَائَتْ الْأَمْطَارُ فَيَشُقُّ عَلَيَّ اجْتِيَازُهُ فَوَدِدْتُ أَنَّکَ تَأْتِي فَتُصَلِّي مِنْ بَيْتِي مَکَانًا أَتَّخِذُهُ مُصَلًّی فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَفْعَلُ فَغَدَا عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَکْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَعْدَ مَا اشْتَدَّ النَّهَارُ فَاسْتَأْذَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَذِنْتُ لَهُ فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّی قَالَ أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِکَ فَأَشَرْتُ لَهُ إِلَی الْمَکَانِ الَّذِي أُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ فِيهِ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَکَبَّرَ وَصَفَفْنَا وَرَائَهُ فَصَلَّی رَکْعَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ وَسَلَّمْنَا حِينَ سَلَّمَ فَحَبَسْتُهُ عَلَی خَزِيرٍ يُصْنَعُ لَهُ فَسَمِعَ أَهْلُ الدَّارِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي فَثَابَ رِجَالٌ مِنْهُمْ حَتَّی کَثُرَ الرِّجَالُ فِي الْبَيْتِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ مَا فَعَلَ مَالِکٌ لَا أَرَاهُ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ ذَاکَ مُنَافِقٌ لَا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَقُلْ ذَاکَ أَلَا تَرَاهُ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَبْتَغِي بِذَلِکَ وَجْهَ اللَّهِ فَقَالَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ أَمَّا نَحْنُ فَوَاللَّهِ لَا نَرَی وُدَّهُ وَلَا حَدِيثَهُ إِلَّا إِلَی الْمُنَافِقِينَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَی النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَبْتَغِي بِذَلِکَ وَجْهَ اللَّهِ قَالَ مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ فَحَدَّثْتُهَا قَوْمًا فِيهِمْ أَبُو أَيُّوبَ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَتِهِ الَّتِي تُوُفِّيَ فِيهَا وَيَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَلَيْهِمْ بِأَرْضِ الرُّومِ فَأَنْکَرَهَا عَلَيَّ أَبُو أَيُّوبَ قَالَ وَاللَّهِ مَا أَظُنُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا قُلْتَ قَطُّ فَکَبُرَ ذَلِکَ عَلَيَّ فَجَعَلْتُ لِلَّهِ عَلَيَّ إِنْ سَلَّمَنِي حَتَّی أَقْفُلَ مِنْ غَزْوَتِي أَنْ أَسْأَلَ عَنْهَا عِتْبَانَ بْنَ مَالِکٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنْ وَجَدْتُهُ حَيًّا فِي مَسْجِدِ قَوْمِهِ فَقَفَلْتُ فَأَهْلَلْتُ بِحَجَّةٍ أَوْ بِعُمْرَةٍ ثُمَّ سِرْتُ حَتَّی قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَأَتَيْتُ بَنِي سَالِمٍ فَإِذَا عِتْبَانُ شَيْخٌ أَعْمَی يُصَلِّي لِقَوْمِهِ فَلَمَّا سَلَّمَ مِنْ الصَّلَاةِ سَلَّمْتُ عَلَيْهِ وَأَخْبَرْتُهُ مَنْ أَنَا ثُمَّ سَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِکَ الْحَدِيثِ فَحَدَّثَنِيهِ کَمَا حَدَّثَنِيهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ
اسحٰق، یعقوب بن ابراہیم، ابراہیم، ابن شہاب، محمود رضی ﷲ تعالیٰ عنہ بن ربیع انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ مجھ کو رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم یاد ہیں اور وہ کلی بھی یاد ہے جو میرے چہرے پر آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے گھر کو کنوئیں سے لے کر کی تھی، انہوں نے کہا کہ میں نے عتبان بن مالک انصاری کو جو رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بدر میں شریک ہوئے تھے کہتے ہوئے سنا کہ میں اپنی قوم بنی سالم کو نماز پڑھاتا تھا اور میرے درمیان اور ان کے درمیان ایک وادی حائل تھی اور جب بارش ہوتی تو میرے لئے ان کی مسجد کی طرف راستہ طے کرکے جانا دشوار ہوتا، میں رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس یا اور عرض کیا کہ میری نگاہ کمزور ہے اور وادی جو ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حائل ہے جب بارش ہوتی ہے تو مجھ پر دشوار ہوتا ہے کہ راستہ طے کرکے وہاں پہنچوں، اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم آئیں اور میرے مکان میں ایک جگہ پر نماز پڑھ لیں کہ میں اس کو نماز کی جگہ بنالوں، رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں ایسا کروں گا، چناچہ صبح کے وقت میرے پاس نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ پہنچے جب کہ دھوپ تیز ہوچکی تھی پھر رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت چاہی تو میں نے آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کو اجازت دے دی، آپ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ ابھی بیٹھے بھی نہ تھے کہ فرمایا تم اپنے گھر میں کون سی جگہ پسند کرتے ہو جہاں میں نماز پڑھوں؟ میں نے اس جگہ کی طرف اشارہ کیا جس میں نماز پڑھنا پسند کرتا تھا، پھر رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی اور ہم نے آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے صف قائم کی پھر دو رکعت نماز پڑھی پھر آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے سلام پھیرا اور ہم نے بھی سلام پھیرا اور جب آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم سلام پھیر چکے تو میں آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کو خزیرۃ(ایک قسم کا کھانا) پر روکا، جو آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کیلئے تیار کرلیا گیا تھا- جب دوسرے گھر والوں نے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی آواز میرے گھر میں سنی تو دوڑ پڑے یہاں تک کہ گھر میں لوگ بہت زیادہ ہوگئے تو ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ مالک نے کیا کیا، میں اسے نہیں دیکھتا ہوں تو ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ وہ منافق ہے ﷲ کے رسول سے اسے محبت نہیں، رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایسا نہ کہو، کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس نے لا الہ ﷲ کہا ہے اس سے ﷲ کی رضا چاہتا ہے تو اس نے کہا ﷲ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں لیکن ہم تو بخدا اس کی محبت اور اس کی گفتگو منافقین ہی سے دیکھتے ہیں، رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ﷲ نے جہنم پر اس شخص کو حرام کردیا ہے جو لا الہ ﷲ کہے اور اس سے رضائے الٰہی چاہتا ہو- محمود نے بیان کیا کہ میں نے اس کو ایک جماعت سے بیان کیا جس میں رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی ابوایوب رضی ﷲ تعالیٰ عنہ بھی تھے اور اس جنگ میں بیان کیا جس میں انہوں نے وفات پائی اور اس وقت روم میں یزید بن معاویہ حاکم تھا، ابوایوب نے ہماری اس حدیث کا انکار کیا اور کہا و ﷲ جو تو نے کہا میرا خیال ہے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کہا، یہ مجھے برا معلوم ہوا اور میں نے ﷲ کیلئے نذر مانی کہا اگر وہ مجھے صحیح و سالم رکھے یہاں تک کہ میں اس غزوہ سے واپس ہوجاؤں تو میں اس حدیث کے متعلق عتبان رضی ﷲ تعالیٰ عنہ بن مالک سے پوچھوں گا، اگر میں نے انہیں ان کی قوم کی مسجد میں زندہ پایا، چناچہ میں غزوہ سے لوٹا میں نے حج یا عمرہ کا احرام باندھا پھر میں چلا یہاں تک کہ مدینہ پہنچا، میں بنی سالم کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ عتبان بڈھے اور نابینا ہوگئے ہیں اپنی قوم کو نماز پڑھاتے ہیں، جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے ان کو سلام کیا اور بتایا کہ میں کون ہوں، پھر میں نے ان سے حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے مجھ سے اسی طرح بیان کیا جس طرح پہلی بار بیان کیا گیا تھا-



contributed by MUHAMMAD TAHIR RASHID.

No comments:

Post a Comment