Saturday, May 7, 2011

Jild2,Bil-lihaaz Jild Hadith no:1460,TotalNo:3996


کتاب حدیث
صحیح بخاری
کتاب
غزوات کا بیان
باب
غزوہ طائف کا بیان
حدیث نمبر
3996
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَائِ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَی رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ کُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ نَازِلٌ بِالْجِعْرَانَةِ بَيْنَ مَکَّةَ وَالْمَدِينَةِ وَمَعَهُ بِلَالٌ فَأَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ أَلَا تُنْجِزُ لِي مَا وَعَدْتَنِي فَقَالَ لَهُ أَبْشِرْ فَقَالَ قَدْ أَکْثَرْتَ عَلَيَّ مِنْ أَبْشِرْ فَأَقْبَلَ عَلَی أَبِي مُوسَی وَبِلَالٍ کَهَيْئَةِ الْغَضْبَانِ فَقَالَ رَدَّ الْبُشْرَی فَاقْبَلَا أَنْتُمَا قَالَا قَبِلْنَا ثُمَّ دَعَا بِقَدَحٍ فِيهِ مَائٌ فَغَسَلَ يَدَيْهِ وَوَجْهَهُ فِيهِ وَمَجَّ فِيهِ ثُمَّ قَالَ اشْرَبَا مِنْهُ وَأَفْرِغَا عَلَی وُجُوهِکُمَا وَنُحُورِکُمَا وَأَبْشِرَا فَأَخَذَا الْقَدَحَ فَفَعَلَا فَنَادَتْ أُمُّ سَلَمَةَ مِنْ وَرَائِ السِّتْرِ أَنْ أَفْضِلَا لِأُمِّکُمَا فَأَفْضَلَا لَهَا مِنْهُ طَائِفَةً
محمد بن علاء، ابواسامہ، برید بن عبدﷲ، ابوبردہ، ابوموسیٰ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا جب آپ مکہ اور مدینہ کے درمیان (مقام) جعرانہ میں فروکش ہوئے تھے اور آپ کے ساتھ بلال رضی ﷲ تعالیٰ عنہ بھی تھے ایک اعرابی نے آپ کی خدمت میں آکر کہا کیا آپ مجھ سے کیا ہوا وعدہ پورا نہ فرمائیں گے؟ آپ نے فرمایا (ثواب عظیم کی) بشارت حاصل کر اس نے کہا آپ بارہا بشارت بشارت فرما چکے ہیں (میں اس کا کیا کروں) تو آپ نے غضبناک صورت میں ابوموسیٰ اور بلال کی جانب متوجہ ہوکر فرمایا کہ اس نے تو بشارت کو قبول نہ کیا لہذا تم اسے قبول کرو انہوں نے کہا ہم نے قبول کیا پھر آپ نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا اور اپنے ہاتھ اور منہ دھو کر اس میں کلی کی پھر ان دونون سے فرمایا کہ اس سے پیواور اپنے چہروں اور سینوں پر چھڑک لو اور بشارت حاصل کرو انہوں نے پیالہ لے لیا او ایسا ہی کیا ام سلمہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا نے پردہ کے پیچھے سے پکار کر کہا کہ اپنی ماں کے (یعنی میرے) لئے بھی کچھ چھوڑ دینا تو انہوں نے ان کے لئے بھی ایک حصہ چھوڑ دیا-



contributed by MUHAMMAD TAHIR RASHID.

No comments:

Post a Comment