Saturday, May 7, 2011

Jild2,Bil-lihaaz Jild Hadith no:1455,TotalNo:3991


کتاب حدیث
صحیح بخاری
کتاب
غزوات کا بیان
باب
غزوہ اوطاس کا بیان
حدیث نمبر
3991
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَائِ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَی رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا فَرَغَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ حُنَيْنٍ بَعَثَ أَبَا عَامِرٍ عَلَی جَيْشٍ إِلَی أَوْطَاسٍ فَلَقِيَ دُرَيْدَ بْنَ الصِّمَّةِ فَقُتِلَ دُرَيْدٌ وَهَزَمَ اللَّهُ أَصْحَابَهُ قَالَ أَبُو مُوسَی وَبَعَثَنِي مَعَ أَبِي عَامِرٍ فَرُمِيَ أَبُو عَامِرٍ فِي رُکْبَتِهِ رَمَاهُ جُشَمِيٌّ بِسَهْمٍ فَأَثْبَتَهُ فِي رُکْبَتِهِ فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ يَا عَمِّ مَنْ رَمَاکَ فَأَشَارَ إِلَی أَبِي مُوسَی فَقَالَ ذَاکَ قَاتِلِي الَّذِي رَمَانِي فَقَصَدْتُ لَهُ فَلَحِقْتُهُ فَلَمَّا رَآنِي وَلَّی فَاتَّبَعْتُهُ وَجَعَلْتُ أَقُولُ لَهُ أَلَا تَسْتَحْيِي أَلَا تَثْبُتُ فَکَفَّ فَاخْتَلَفْنَا ضَرْبَتَيْنِ بِالسَّيْفِ فَقَتَلْتُهُ ثُمَّ قُلْتُ لِأَبِي عَامِرٍ قَتَلَ اللَّهُ صَاحِبَکَ قَالَ فَانْزِعْ هَذَا السَّهْمَ فَنَزَعْتُهُ فَنَزَا مِنْهُ الْمَائُ قَالَ يَا ابْنَ أَخِي أَقْرِئْ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّلَامَ وَقُلْ لَهُ اسْتَغْفِرْ لِي وَاسْتَخْلَفَنِي أَبُو عَامِرٍ عَلَی النَّاسِ فَمَکُثَ يَسِيرًا ثُمَّ مَاتَ فَرَجَعْتُ فَدَخَلْتُ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِهِ عَلَی سَرِيرٍ مُرْمَلٍ وَعَلَيْهِ فِرَاشٌ قَدْ أَثَّرَ رِمَالُ السَّرِيرِ بِظَهْرِهِ وَجَنْبَيْهِ فَأَخْبَرْتُهُ بِخَبَرِنَا وَخَبَرِ أَبِي عَامِرٍ وَقَالَ قُلْ لَهُ اسْتَغْفِرْ لِي فَدَعَا بِمَائٍ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعُبَيْدٍ أَبِي عَامِرٍ وَرَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَوْقَ کَثِيرٍ مِنْ خَلْقِکَ مِنْ النَّاسِ فَقُلْتُ وَلِي فَاسْتَغْفِرْ فَقَالَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ ذَنْبَهُ وَأَدْخِلْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُدْخَلًا کَرِيمًا قَالَ أَبُو بُرْدَةَ إِحْدَاهُمَا لِأَبِي عَامِرٍ وَالْأُخْرَی لِأَبِي مُوسَی
محمد بن علاء، ابواسامہ، برید بن عبدﷲ، ابوبردہ، ابوموسیٰ اشعری سے روایت کرتے ہیں کہ جب نبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم غزوہ حنین سے فارغ ہوئے تو آپ علیہ السلام نے ابوعامر کو ایک لشکر کا سردار بنا کر قوم اوطاس کی جانب بھیجا ان کا مقابلہ درید بن صمہ سے ہوا درید مارا گیا اور اس کے ساتھیوں کو ﷲ نے شکست دی ابوموسیٰ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت نے مجھے بھی ابوعامر کے ساتھ بھیجا تو ابوعامر کے گھٹنہ میں ایک تیر آکر لگا ّ جو ایک جشمی آدمی نے پھینکا تھا وہ تیر ان کے زانو میں اتر گیا میں ان پاس گیا اور پوچھا، چچا جان! آپ کے کس نے تیر مارا ہے؟ انہوں نے ابوموسیٰ کو اشارہ سے بتایا کہ میرا قاتل وہ ہے جس نے میرے تیر مارا ہے تو میں اس کی تاک میں چلا جب اس نے مجھے دیکھا تو بھاگا- میں نے اس کا پیچھا کیا اور اس سے کہتا جارہا تھا اوبے غیرت اوبے غیرت ٹھہرتا کیوں نہیں؟ وہ ٹھہر گیا میں اور وہ ایک دوسرے پر تلواروں سے حملہ آور ہوئے اور میں نے اسے قتل کردیا پھر میں نے ابوعامر سے کہا کہ ﷲ نے آپ کے قاتل کو ہلاک کر دیا ہے انہوں نے کہا میرا یہ پیوست شدہ تیر تو نکالو میں نے وہ تیر نکالا تو اس (زخم) سے پانی نکلا انہوں نے کہا برادر زادہ نبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم سے میرا سلام کہنا اور آپ سے عرض کرنا کہ میرے لئے دعائے مغفرت کریں ابوعامر نے مجھے اپنی جگہ امیر لشکر نامزد کیا تھوڑی دیر زندہ رہ کر شہید ہوگئے میں واپس لوٹا اور نبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوا آپ علیہ السلام اپنے مکان میں ایک بانوں والی چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے اور اس پر (براءے نام ایسا) فرش تھا کہ چارپائی کے بانوں کے نشانات آپ کی پشت اور پہلو میں پڑگئے چناچہ میں نے آپ علیہ السلام کو اپنے اور ابوعامر کے حلات کی اطلاع دی اور (میں نے کہا کہ) انہوں نے آپ سے یہ عرض کرنے کو کہا ہے کہ میرے لئے دعائے مغفرت کیجئے آپ نے پانی منگوا کر وضو کیا پھر اپنے ہاتھ اٹھا کر فرمایا اے خدا! عبید ابی عامر کی مغفرت فرما اور (آپ کے ہاتھ اتنے اونچے تھے کہ) آپ کی بغلوں کی سفیدی میں دیکھ رہا تھا پھر آپ نے فرمایا اے ﷲ! اسے قیامت کے دن اپنی اکثر مخلوق پر فضیلت عطا فرما میں نے عرض کیا کہ میرے لئے بھی دعائے مغفرت فرمائیے آپ نے فرمایا اے ﷲ! عبدﷲ بن قیس کے گناہوں کو بخش دے اور قیامت کے دن اسے معزز جگہ داخل فرما ابوبردہ کہتے ہیں کہ ان میں سے ایک دعا ابوعامر کے لئے تھی اور دوسری ابوموسیٰ کے لئے-



contributed by MUHAMMAD TAHIR RASHID.

No comments:

Post a Comment