کتاب حدیث
صحیح بخاری
کتاب
انبیاء علیہم السلام کا بیان
باب
سر کار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا مہاجرین و انصار کے درمیان اخوت قائم کرنا
حدیث نمبر
3504
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ لَمَّا قَدِمُوا الْمَدِينَةَ آخَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَسَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ قَالَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنِّي أَکْثَرُ الْأَنْصَارِ مَالًا فَأَقْسِمُ مَالِي نِصْفَيْنِ وَلِي امْرَأَتَانِ فَانْظُرْ أَعْجَبَهُمَا إِلَيْکَ فَسَمِّهَا لِي أُطَلِّقْهَا فَإِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُهَا فَتَزَوَّجْهَا قَالَ بَارَکَ اللَّهُ لَکَ فِي أَهْلِکَ وَمَالِکَ أَيْنَ سُوقُکُمْ فَدَلُّوهُ عَلَی سُوقِ بَنِي قَيْنُقَاعَ فَمَا انْقَلَبَ إِلَّا وَمَعَهُ فَضْلٌ مِنْ أَقِطٍ وَسَمْنٍ ثُمَّ تَابَعَ الْغُدُوَّ ثُمَّ جَائَ يَوْمًا وَبِهِ أَثَرُ صُفْرَةٍ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَهْيَمْ قَالَ تَزَوَّجْتُ قَالَ کَمْ سُقْتَ إِلَيْهَا قَالَ نَوَاةً مِنْ ذَهَبٍ أَوْ وَزْنَ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ شَکَّ إِبْرَاهِيمُ
اسماعیل بن عبد ﷲ ابراہیم بن سعد اپنے والد سے اور دادا سے روایت کرتے ہیں کہ جب مہاجرین مدینہ آئے تو رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے عبدالرحمن اور سعد بن ربیع کے درمیا ن اخوت قا ئم کر دی سعد نے عبدالرحمن سے کہا کہ میں انصار میں زیادہ دولت مند ہوں تو میں اپنے مال کے دو حصے کئے دیتا ہوں (ایک تم لے لو) نیز میری دو بیویاں ہیں تم جا کر دیکھ لو جو تمہیں ان میں سے پسند آئے مجھے اس کا نام بتا دو میں اس کو طلاق دے دوں گا اور جب عدت گزر جائے تو تم اس سے نکاح کر لینا عبدالرحمن نے کہا کہ خدا تمہارے مال اور تمہاری ازواج میں برکت عطا فرمائے (مجھے یہ بتا دو کہ) تمہارا بازار کہاں ہے؟ تو انہیں بنی قینقاع نامی بازار بتا دیا گیا جب وہ بازار سے واپس آئے تو ان کے ہمراہ کچھ پینر اور گھی تھا اس کے بعد وہ برابر صبح کو بازار جانے لگے پھر ایک دن وہ آئے تو ان کے اوپر زردی کا کچھ اثر تھا نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا میں نے نکاح کر لیا ہے آپ نے پوچھا تم نے اسے کتنا مہر دیا؟ عبدالر حمن نے کہا سونے کی ایک گٹھی یا یہ کہ ایک گٹھلی کے برابر سونا ابراہیم راوی کو یہاں شک ہو گیا ہے-
contributed by MUHAMMAD TAHIR RASHID.
No comments:
Post a Comment