کتاب حدیث
صحیح بخاری
کتاب
صلح کا بیان
باب
اگر لوگ ظلم کی بات پر صلح کر لیں تو وہ صلح مقبول نہیں ہے۔
حدیث نمبر
2509
حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَا جَائَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اقْضِ بَيْنَنَا بِکِتَابِ اللَّهِ فَقَامَ خَصْمُهُ فَقَالَ صَدَقَ اقْضِ بَيْنَنَا بِکِتَابِ اللَّهِ فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ إِنَّ ابْنِي کَانَ عَسِيفًا عَلَی هَذَا فَزَنَی بِامْرَأَتِهِ فَقَالُوا لِي عَلَی ابْنِکَ الرَّجْمُ فَفَدَيْتُ ابْنِي مِنْهُ بِمِائَةٍ مِنْ الْغَنَمِ وَوَلِيدَةٍ ثُمَّ سَأَلْتُ أَهْلَ الْعِلْمِ فَقَالُوا إِنَّمَا عَلَی ابْنِکَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَکُمَا بِکِتَابِ اللَّهِ أَمَّا الْوَلِيدَةُ وَالْغَنَمُ فَرَدٌّ عَلَيْکَ وَعَلَی ابْنِکَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ وَأَمَّا أَنْتَ يَا أُنَيْسُ لِرَجُلٍ فَاغْدُ عَلَی امْرَأَةِ هَذَا فَارْجُمْهَا فَغَدَا عَلَيْهَا أُنَيْسٌ فَرَجَمَهَا
آدم ابی ذئب زہری عبید ﷲ بن عبدﷲ بواسطہ ابوہریرہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ خالد بن زید جہنی روایت کرتے ہیں دونوں نے بیان کیا کہ ایک اعرابی آیا اور عرض کیا یا رسول ﷲ ہمارے درمیان کتاب ﷲ کے مطابق فیصلہ کردیجئے اس کا فریق مخالف کھڑا ہوا اور عرض کیا ٹھیک ہے ہمارے درمیان کتاب ﷲ کے مطابق فیصلہ کردیجئے اعرابی نے کہا کہ میرا بیٹا اس کے یہاں مزدور تھا اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا لوگوں نے مجھ سے کہا کہ تیرے بیٹے کو سنگسار ہونا چاہئے میں نے اپنے بیٹے کو سو بکریاں اور ایک لونڈی دے کر چھڑا لیا پھر میں نے علم والوں سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا تیرے بیٹے کو ایک سو کوڑے لگنے چاہئیں اور ایک سال کے لیے جلا وطن ہونا چاہئے نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے درمیان کتاب ﷲ کے مطابق فیصلہ کردوں گا لونڈی اور بکریاں تو تجھے واپس کی جاتی ہیں اور تیرے بیٹے کو ایک سو کوڑے پڑیں گے اور ایک سال کے لیے جلا وطن ہوگا اور ایک آدمی سے آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے انیس کل تو اس شخص کی بیوی کے پاس جا اگر (وہ زنا کا اقرار کرے تو) اس کو سنگسار کردے چناچہ انیس نے صبح کے وقت جا کر اس کو سنگسار کردیا-
contributed by MUHAMMAD TAHIR RASHID.
No comments:
Post a Comment