Wednesday, February 16, 2011

Sahi Bukhari, Jild 1, Hadith no:2512


کتاب حدیث
صحیح بخاری
کتاب
صلح کا بیان
باب
کس طرح (صلح نامہ) لکھا جائے۔
حدیث نمبر
2512
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَی عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ اعْتَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذِي الْقَعْدَةِ فَأَبَی أَهْلُ مَکَّةَ أَنْ يَدَعُوهُ يَدْخُلُ مَکَّةَ حَتَّی قَاضَاهُمْ عَلَی أَنْ يُقِيمَ بِهَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَلَمَّا کَتَبُوا الْکِتَابَ کَتَبُوا هَذَا مَا قَاضَی عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ فَقَالُوا لَا نُقِرُّ بِهَا فَلَوْ نَعْلَمُ أَنَّکَ رَسُولُ اللَّهِ مَا مَنَعْنَاکَ لَکِنْ أَنْتَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ أَنَا رَسُولُ اللَّهِ وَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ثُمَّ قَالَ لِعَلِيٍّ امْحُ رَسُولُ اللَّهِ قَالَ لَا وَاللَّهِ لَا أَمْحُوکَ أَبَدًا فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْکِتَابَ فَکَتَبَ هَذَا مَا قَاضَی عَلَيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ لَا يَدْخُلُ مَکَّةَ سِلَاحٌ إِلَّا فِي الْقِرَابِ وَأَنْ لَا يَخْرُجَ مِنْ أَهْلِهَا بِأَحَدٍ إِنْ أَرَادَ أَنْ يَتَّبِعَهُ وَأَنْ لَا يَمْنَعَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِهِ أَرَادَ أَنْ يُقِيمَ بِهَا فَلَمَّا دَخَلَهَا وَمَضَی الْأَجَلُ أَتَوْا عَلِيًّا فَقَالُوا قُلْ لِصَاحِبِکَ اخْرُجْ عَنَّا فَقَدْ مَضَی الْأَجَلُ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبِعَتْهُمْ ابْنَةُ حَمْزَةَ يَا عَمِّ يَا عَمِّ فَتَنَاوَلَهَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَخَذَ بِيَدِهَا وَقَالَ لِفَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام دُونَکِ ابْنَةَ عَمِّکِ حَمَلَتْهَا فَاخْتَصَمَ فِيهَا عَلِيٌّ وَزَيْدٌ وَجَعْفَرٌ فَقَالَ عَلِيٌّ أَنَا أَحَقُّ بِهَا وَهِيَ ابْنَةُ عَمِّي وَقَالَ جَعْفَرٌ ابْنَةُ عَمِّي وَخَالَتُهَا تَحْتِي وَقَالَ زَيْدٌ ابْنَةُ أَخِي فَقَضَی بِهَا النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِخَالَتِهَا وَقَالَ الْخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الْأُمِّ وَقَالَ لِعَلِيٍّ أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْکَ وَقَالَ لِجَعْفَرٍ أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي وَقَالَ لِزَيْدٍ أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلَانَا
عبید ﷲ بن موسیٰ اسرائیل ابواسحق براء سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے ذی قعد کے مہینہ میں عمرہ کا ارادہ کیا تو مکہ والوں نے آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کو داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کیا یہاں تک کہ ان سے اس بات پر فیصلہ ہوا کہ آئندہ سال تین دن قیام کریں گے جب صلح نامہ لکھنے لگے تو اس کے شروع میں لکھا کہ وہ صلح نامہ ہے جس پر محمد ﷲ کے رسول راضی ہوئے مکہ والوں نے کہا کہ ہم تو اس کا اقرار نہیں روکتے بلکہ تم تو محمد بن عبدﷲ ہو آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں ﷲ کا رسول ہوں اور عبدﷲ کا بیٹا ہوں پھر حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے فرمایا رسول ﷲ کا لفظ مٹا دو انہوں نے کہا نہیں خدا کی قسم میں کبھی نہیں اس کو مٹاؤں گا آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے وہ کاغذ اپنے ہاتھ میں لیا اور لکھوایا ھذا ما قاضی علیہ محمد بن عبدﷲ وہ مکہ میں اس حال میں داخل ہوں گے کہ ان کے ہتھیار نیام میں ہوں گے اور اگر مکہ کا کوئی شخص ان کے ساتھ جانا چاہئے تو اس کو ساتھ لے کر نہیں جائیں گے اور اپنے ساتھیوں میں سے کوئی شخص مکہ جانے کے بعد اگر وہاں رہنا چاہئے گا تو اسے منع نہیں کریں گے جب دوسرے سال آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے اور مدت گزر گئی تو لوگ حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچے اور کہا کہ اپنے ساتھی سے کہو کہ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس چلے جائیں اس لیے کہ مدت گزر چکی نبی صلی ﷲ علیہ وسلم روانہ ہوئے تو حضرت حمزہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی بیٹی چچا چچا کہتی پیچھے ہوگئی حضرت علی نے اسے لے لیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر فاطمہ سے کہا کہ اپنے چچاکی بیٹی کو لے لو انہوں نے اس کو سوار کرلیا تو اس کے متعلق حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ، زید رضی ﷲ تعالیٰ عنہ اور جعفر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ جھگڑنے لگے حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا میں اس لڑکی کا مستحق ہوں کہ وہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور حضرت جعفر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے دعویٰ کیا کہ وہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میری زوجیت میں ہے (اس لیے میں زیادہ مستحق ہوں) زید نے (اپنے استحقاق کا دعویٰ کیا اور) کہا کہ میرے بھائی کی بیٹی ہے چناچہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے اس کی خالہ کے حق میں فیصلہ کیا اور فرمایا خالہ بمنزلہ ماں کے ہے اور علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ میں تجھ سے ہوں اور تو مجھ سے اور جعفر سے فرمایا کہ تم صورت سیرت میں مجھ سے زیادہ مشابہ ہو اور زید سے کہا تو ہمارا بھائی اور مولا ہے-



contributed by MUHAMMAD TAHIR RASHID.

No comments:

Post a Comment